Thursday 28 March 2019

ادب کے حوالے سے قرن وسطیٰ میں معاشرتی اتحاد


تہذیب و تمدن یہ وہ لفظ ہیں، جس سے دنیا اپنی تاریخ کا مطالعہ کرتی ہے اور دنیا جس کے بدولت اپنے کو اعلیٰ و ارفعٰ سمجھتی ہے،اور دوسرے کے سامنے اپنے منہ میاں مٹھو بنتی ہے۔حقیت بھی یہی ہے کہ تہذیب و تمدن سے ہی اقوام عالم کی بنیاد ہے، اسی سے دنیا کی قومیں آباد ہیں،کہا جاتا ہے کہ تہذیب و تمدن نے ہی نے قوموں کو بلند کیا ،اور اسی تہذیب نے اس کو قعر مذلت میں گھسیٹا۔تہذیب انسانی زندگی کا ایک آینہ ہے جس میں انسان کو اپنا عکس نظر آتاہے۔قوموں نے تہذیب ہی کے سہارے دنیا پر حکمرانی کی ،اور اسی تہذیب نے ان سے حکومتیں چھین لیں۔اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہم کو معلوم ہوگا کہ دنیا میں بہت ساری قومیں آباد ہوئیں ،اور جب ان قوموں نے انسانیت ، تہذیب و تمدن اور اتحاد معاشرت کو قائم رکھاتو وہ قوم قائم و دائم رہی ،لیکن جونہی انہوں نے غیر انسانی فعل اور غیر معاشرتی عمل کو اپنا یا صفحہ ہستی سے مٹادی گی۔
دور حاضر میں اگرتہذیب وتمدن کی بات کریں تواسکا معیار آج مغرب و مشرق میں تقسیم ہوگیا ہے، جہاں مغربی تہذیب ایک جدیدیت اور ماڈرنزم کے راہ پر گامزن ہیں ،وہیں مشرقی تہذیب اپنی روایت دیرینہ کی چولی دامن پکڑے ہوا ہے۔ اقبال ؔ نے مغربی تہذیب پر کا ری ضرب لگاتے ہوئے کہا ہے۔
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
ایک جگہ اقبال ؔ نے مشرق کے نوجوانوں کومغربی تہذیب سے پرہیز کرنے کو کہتے ہو ے کہا ہے ۔
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب مغرب کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
اقبال کو شک اس کی شرافت میں نہیں ہے
ہر ملک میں مظلوم کا یورپ ہے خریدار
اکبر الہ آبادی نے اسی بات کو اس انداز میں کہا ہے کہ
مشرق کی چال ڈھال کا معمول اور ہے
مغرب کے ناز و رقص کا اسکول اور ہے

تاریخ تمدن ہند۔۔۔۔۔۔۔۔ اب ہم اپنے ملک ہندستان کی بات کرتے ہیں ،ہندستان میں تہذیبی تاریخ کی شروعات آج سے تقریبا ۵۰۰۰ سال قبل سندھو ندی اور اس کے اطراف میں سندھو اور ہڑپاتہذیب کی شکل میں دکھائی دیتا ہے،اس کے اثرات وسعت اور جغرافیائی کو دیکھتے ہوےئے اس تہذیب کو لوگوں نے حتمی نہیں مانا ہے، بلکہ قومی تہذیب کے ابتدائی نقوش ۱۰۰۰ سال قبل ویدک تہذیب کے روپ میں دکھائی دیتی ہے ۔ہندستان ایک کثیر تہذیبی ملک ہے یہاں کی تہذیب نہ صرف بہت قدیم ہے بلکہ اتنی وسیع ہے کہ ہماری ملک کی تہذیب کے چراغ دوسرے ملکوں میں بھی روشن ہے،بہت سی قدیم تہذیبیں مٹ گیءں،یونان ومصر جیسے تہذیبی گہوارے اپنا نام و نشان کھو بیٹھے، مگر ہندستان کی تہذیب اتنی پر قوت ہے کہ آج بھی ہندستان کی تہذیب دوسروں ملکوں کے لے ایک مثال کی حیثیت رکھتی ہے،ہندستان جو تہذیبی رنگا رنگی اورتنوع ہے اس سے دنیا کے بہت سے ممالک محروم ہے۔یہاں کی تہذیبی کثرت میں جووحدت ہے یہی اس ملک کا سناش نامہ ہے۔ 

جب ہم ہندستان کی تہذیبی اور ملکی حدود کا تعین کرتے ہیں تو ہمیں کا فی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔حکومت کا مرکزی نظم و نسق جو عام طور پر دہلی سے ہوتا تھا،ملک کو عملا متحد رکھنے والی واحد قوت تھی۔اس عملداری کا علاقہ ایک بادشاہ سے دوسرے بادشاہ تک بھی مختلف تھا،سلطنت دہلی کی حدود وقتا فوقتا بدلتی رہتی تھی جس کا نتیجہ یہ تھا کہ ہم کو صحیح اندازہ نہیں مل پاتا ہے کہ ملک کی حدود کیا تھی۔بہرحال سیاسی حدود کسی علاقے کے تہذیبی اثرات ناپنے کا صحیح پیمانہ نہیں ہوتے ،کیوں کہ وقت کی رفتار کے ساتھ ساتھ راجپوتانہ کے ناقابل عبور علاقوں نے بھی اپنے پڑوسی علاقوں کے تہذیبی اثرات کو اپنے اندر اس حد تک جذب کرلیا کہ ایک اور ایک راجپوت کے درمیان امتیاز کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوگیاتھا۔

قرن وسطیٰ کی تاریخ۔۔۔۔۔۔۔ ہندستان میں عہد وسطیٰ اس زمانہ کو کہتے ہیں جو قدیم ہندستانی تاریخ کے خاتمہ سے لے کر دورجدید تک باقی رہا،جس کو انگریزی میں (Medieval Period) کہا جاتا ہے۔کیوں کہ قدیم دور کا اختتام ۸ویں صدی عیسوی میں ہو جاتا ہے اور تبھی سے عہد وسطیٰ کا آغاز ہوتا ہے، جو تقریبا۱۰۰۰ سال تک جاری رہا،اور۱۸ ویں صدی عیسویں میں اس کا خاتمہ ہوا۔اس طرح سے ہندستان کی تاریخ تین ادوار پرمشتمل ہے،اورہر دور ایکدوسرے سے علاحدہ ہے،عہد قدیم میں یونان اور چینی اثرات تو ہندستان کی سرزمین پر ظاہر ہوئے مگر پورے طور پر ہندستان ہی کہ لوگوں نے یہاں حکومت کی اور پورے ہندستان کو مقامی تہذیب،ثقافت ،آرٹ ،فن تعمیر اور مذاہب کے پیش نظر آگے بڑھایا۔لیکن عہد وسطیٰ میں ترکی ،عرب،افغان،مغل اور ایرانی اثرات ہندستانی سرزمین پر اس قدر نمایاں انداز میں سامنے آئے جس سے چشم پوشی ممکن نہ تھی،یہ بیرونی طاقتیں کسی نہ کسی وجہ سے ہندستان کی سرزمین پر آئیں اور واپس نہ گئیں،اور کچھ ہی عرصے میں اس ملک کو انھوں نے بھی اپنا وطن تسلیم کرلیا۔اس طرح سے ایک نئی دور اور ایک مشترکہ تہذیب کی بنیاد پڑی۔(بحوالہ ہندستانی تاریخ وثقافت اور فنون لطیفہ،ازعتیق انور صدیقی ص نمبر ۳۷)

عہد وسطیٰ نہ صرف شمالی ہند بلکہ کسی حد تک پورے ہندستان کے سماجی نشوونما کے مطالعے کے لیے یکساں اہمیت کا حامل ہے،مورخین کے مابین تاریخ ہند کے تقسیم ادوار کو لیکر کافی کشمش ہیں ،لیکن ہم اس بحث میں جانا نہیں جاتے کیونکہ ہماری خواہش کسی ایک رائے سے بحث یا کسی ایک تقسیم کو قبول کرنے کی نہیں ہے۔ایک سماجی ڈھانچے کے لیے ان اصطلاحات کا استعمال کرنے سے ہے ،جس میں ہزاروں سال سے کوئی اہم مادی تبدیلی نہ ہوئی ہو۔ تاریخی پس منظر کے واضح ہونے کے بجائے انتشار کا زیادہ امکان ہے۔ہندستان کے سماجی نشوونماکے زمانے خواہ انھیں ہم کسی نا م سے پکاریں تاریخی دستاویزات کی روشنی میں کم و بیش یکساں خصوصیات کی حامل ہیں ،حتیٰ کہ موجودہ زمانے تک جب کہ سماجی بنیادوں میں اساسی تبدیلی رونما ہوچکی ہے کافی حد تک وہی قدیم طریقہ باقی ہے۔

معاشرہ علم ادب کے گہوارے میں۔۔۔۔۔۔۔ ہر معاشرہ اپنی تہذیب و تمدن کے حوالے سے علم وادب کا گہوارہ ہوتاہے،ادیب اور شاعر اس معاشرہ پہ گہری نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ آئندہ آنے والے حالات اور بیت جانے والے واقعات کے گرداب میں بھی چکرکاٹتارہتاہے،شاعر اورادیب کا احساس اتنا گہرادوراندیش کا حامل اور حقیت پر مبنی ہوتا ہے کہ زمانہ سمندرمیں غوطہ کھاتا ہے۔ مذہبی رواداری سے معاشرہ کا وجود اپنے عروج پر ہوتا ہے،عہد وسطیٰ میں اس کی مثال کثرت سے ملتے ہیں،حکومت سے قطع نظر مسلمانوں کے بیشتر مذہبی طبقے ہندوؤں کی مذہبی آزادی میں دخل اندازی کو روانہیں رکھتے تھے،اس طرز فکر کا آئینہ دار خواجہ نظام الدین اولیاء اللہ کا وہ واقعہ ہے جو تذکروں اور تاریخوں میں ملتا ہے۔ ایک دن صبح کے وقت وہ اپنے جماعت خانے کی چھٹ پر امیر خسرو کے ساتھ ٹہل رہے تھے نیچے نظر پڑی تو دیکھا کہ دریائے کے کنارے کچھ ہندو بتوں کی پوجا میں مصروف ہیں ۔فرمایا 

’’ہر قوم راست راہے دینے و قبلہ گاہے‘‘
اس مصرعے میں مذہبی رواداری کا ایک بے پایاں جذبہ سمٹ آیا ہے ایک ایسے دور میں جب مسلمانوں کا سیاسی اقتدار اپنے نصف النہار پر پہنچ گیا تھا،ایک مذہبی پیشواہ کا یہ بے ساختہ ارشاد صرف مذہبی رواداری کی نہیں بلکہ ایک ایسی فکر کابھی آئینہ دار ہے جس نے ہندستان کی تہذیب کے جلوۂ صد رنگ کو سمجھا لیا ہو اور جو یہاں کے تہذیبی نقشے میں’’ہر دین‘‘ اور’’ قبلہ گاہ‘‘ کو دیکھنے کے لیے تیار ہو۔
(بحوالہ سلاطین دہلی کے مذہبی رجحانات،ازخلیق احمد نظامی ص ۔نمبر ۷۳)

دکنی ،گجری اور بھگتی ادب میں معاشرتی اتحاد۔۔۔۔۔۔۔۔۔عہد وسطیٰ کے اوائل میں جب ہم معاشرہ کی بات کرتے ہیں تو ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ جب مسلم حکومت پورے شباب پر تھی تو ہندوؤ ں کو مکمل آزادی تھی انکے مذہبی عقائد و رسوم، فلسفہ و افکار کو سمجھنے کی پوری کوشش کی جاتی تھی ۔بہت سے مسلم اکابرا ورعلماۂندو مذہب کے فلسفے کو سمجھنے کی پوری کوشش کرتے تھے،ہندو مذہب کی نشرواشاعت کا بھگتی تحریک کھلا ثبوت ہے کہ ملک بھر میں بغیر کسی پابندی کے ہندو مذہب پھیلتا رہا۔کبیر ،نانک اور سندرداس وغیرہ کے کارنامے اس زمانے کے آئینے میں دیکھے جاسکتے ہیں ،اس عہد میں ہندو برہمن عالم مسلمانوں کو درس بھی دیتے تھے۔اس طرح سے ادب میں بھی اس کا بہت زیادہ اثر ہوا اور ایک سماج دوسرے سماج کے اچھائیوں کو اپنارہی تھی ،اسی دور میں جب کہ بھگتی تحریک اپنے عروج پر تھی جس میں صوفی عوام الناس کو انسان اور انسانیت کا درس دے رہے تھے، اور ایک طرح سے معاشرہ کوربط و تسلسل کا ذریعہ بنا رہی تھی ،یہ وہ تحریک ہے جس نے انسان کو ایک حقیقی انسان بنے کا موقع دیا اور انسان اپنی پہچان بنا سکا۔ بھگتی تحریک کا آغازہی اس چیز سے ہوا جو معاشرہ کی بنیاد اور ضروری ہے یعنی محبت،عقیدت ،خلوص ،اخوت اورامن کے مسلک کے طور پر ہوا،قدیم اور جدید ہندو و مسلم تہذیب کے دو چشموں کے سنگم سے قرن وسطیٰ کے ہندستان میں اس تحریک کا آغاز ہوا،بھگتی محبت کے جذبے سے ذاتِ کبریاکے آگے سر نگوں ہونے کا نام ہے،بھگت تسلیم و رضا سے قربِ خداوندی حاصل کرتا ہے اور جذبے کی داخلی حدت سے خدا کو ارضی صورت میں منتقل کرکے اس کے آگے سر بہ سجود ہوجاتاہے،اس لحاظ سے بھگتی تحریک کا جذباتی زاویہ پیش کرتی ہے۔ اس تحریک نے اس دور کے معاشرہ کو ایک طرح سے جھنجھوڑ دیا ،اور معاشرہ میں اعلیٰ اور ادنیٰ کے درمیان مساوات کاکام کیا ،اخوت و بھائی چارگی کا فروغ ہوا،عدل و انصاف کا بول بالا ہوا، جس سے ایک مثالی سماج کا جو خواب تھا وہ پوراہوتا ہوا نظر آیا۔کبیر کے دوہوں میں اس کی جھلک ملتی ہے چنانچہ کبیر کہتاہے۔

کبیر سریر سرائے ہے کیا سوئے سکھ چین
سوانس نگارہ کوچ کا باجت ہے دن رین
ماٹی کہے کمہار کوں تو کیا روندے موہے
اک دن ایسا ہوویگا میں روندوں گی توہے
کبیر کے علاوہ داوؤد،میرا بائی ،سنت تِکارام ،بھگت سورداس ،نام دیو ،پریم ننداور تلسی داس وغیرہ ہیں ،جنہوں نے ادب اور اخلاق کے ذریعے سے بھی اس کا م کو خوب پھیلایا،ادب کے ذریعے اس معنی کے صوفیوں نے کتابیں ،رسائل ۔ملفوظات لکھیں اس دور کے صوفیوں میں اگر دبستان دکن کے طرف جائیں تو ہم کو جمیل جالبی کے مطابق علاء الدین خلجی کی فتح دکن سے بہت پہلے ہمیں ایسے بزگان دین کے نام ملتے ہیں جو دکن کے مختلف علاقوں میں خاموشی سے اپنے اپنے کام میں مصروف ہیں ،حاجی رومی،سید شاہ مومن ،بابا سید مظہر عالم،شاہ جلال الدین گنج رواں،سید احمد کبیر حیات قلندر،بابا شہاب الدین وہ چند برگزیدہ شخصیتیں ہیں جو سرزمین دکن پر تبلیغی و روحانی کام کررہی ہیں۔علاء الدین کے فتح کے بعد اس کو اور فروغ حاصل ہوااور یہاں ہمیں میر مقصود،پیر جمنا،شاہ منتخب زری بخش ،پیر مٹھے ،حضر ت گیسودراز کے والد سید یوسف شاہ راجو قتال ،شاہ برہان الدین غریب،شیخ ضیاء الدین اور بہت سے دوسرے صوفیائے کرام دکن کے مختلف علاقوں میں سجادہ بچھائے درستی اخلاق و تبلیغ دین میں مصروف نظر آتے ہیں ۔(بحوالہ تاریخ ادب اردو ،جلد اول از ڈاکٹر جمیل جالبی ص نمبر ۱۱۹،۱۲۰،)
ان بزرگان دین اور صوفی سنتوں نے اپنی اپنی تحریروں اور رسائل میں اس بات کا خیال رکھا کہ ادب کے ذریعہ سے معاشرتی اتحاد قائم کی جائے ،چنانچہ انہوں نے ایساہی ہے کیا اور ان کی کتابیں اس کا غماز ہیں۔مثال کے طور پر’’ سنت پنتھی رسائل‘‘ محمد عرف ست گرو کی،’’جواہر اسراراللہ‘‘جیو گام دھنی کی،’’خزائن رحمت اللہ‘‘ شیخ باجن کی،’’خوب ترنگ‘‘ شیخ محمد چشتی کی،ان کے علاوہ خوش نغز،مرغوب القلوب وغیرہ ہیں۔
معاشرتی سطح پر یہ ایک ایسا کام تھا جس نے اس دور کے اد ب کو بہت زیادہ متاثر کیا،اور ادب میں اس چیز کو بہت فروغ ملا جس نے ایک نئی معاشرہ اور اچھی معاشرہ کی بنیاد میں اہم کردار حاصل کیا۔ اس طرح سے جب ہم اس دور سے ایک قدم آگے بڑھتے ہیں تو یہ وہ دور ہے جس میں تغلق حکومت کا عروج اور خلجی حکومت کا خاتمہ نظر آتا ہے اس عہد میں علاقائی سطح پر معاشرہ مستحکم ہوتا نظر آیا۔اور ہندستانیوں نے ایران،عربی،ترکی،افغانی نیز وسط ایشیا کے تہذیبی اور معاشرتی اثرات کو بھی قبول کیا،جس کا اثر یہ ہواکہ روز مرہ کی زندگی کے علاوہ آرٹ،ادب اور زبان پر بھی دونوں تہذیبوں کے اثرات نمایاں ہونے لگے ،سلطان دہلی نے ہر ہندستانی کو اس کی زبان ،مذہب ،اور رسم ورواج کی ادائیگی کا پورااختیار دیا،جس کے نتیجے میں ایک مثالی معاشرہ سامنے بن کر ابھرا،یہی وہ دور تھا جب دکن میں خود مختار حکومتیں قائم ہوئیں اور ان حکومتوں کے زیر اثر معاشرہ ادب اور علاقائی سطح پر بام عروج تک پہونچا،خاص کر اگر ہم ادب کے حوالے سے بات کریں تو ہم کو معلوم ہوگا کہ گولکنڈہ اور بیجاپور کی ریاستیں تھی جس نے ادب میں معاشرہ کو جگہ دی اور علاقائی سطح پر اس کو فروغ دیا،بادشاہ خود اس کی نگرانی کرتے تھے۔شعرا ادباء اور عمائدین قوم اس پر عمل کرتے تھے اور ایک مثالی معاشرہ کا جو جو تصور ہو سکتا تھا اس کو ادب میں اس دور کے ادباء نے پیرویا ہے، اس کی مثال دکن کی مثنویوں ،داستانوں،مرثیوں،اور شاعری میں ملتی ہے۔دراصل دیکھا جائے تو ادب اور معاشرہ ایک دوسرے سے مربوط ہے مولانا حالی کی نظر میں شاعری معاشرے پر اور معاشرہ شاعری پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ اسی تقاضہ کو اس سے پہلے کے ادباء نے اپنے اپنے تحریروں میں پیش کیا ہے،چاہے وہ نصرتی ،غواصی ،ملا وجہی،ولی،ابن نشاطی ،اوراس عہد کے بادشاہوں نے بھی اس کو اپنے اپنے دواوین میں فرو غ دیا،اور اپنی تحریروں میں ہندستانی معاشرہ،ہندستانی کردار،یہاں کا رہن سہن ،کھانا پینا غرض کہ ہر اس چیز کو بیان کیا جس سے ایک مثالی معاشرہ معرض وجود میں آتاہے،ولی دکنی فرماتے ہیں کہ۔
صحبت غیر موں جایا نہ کرو 
درد منداں کوں کڑھایا نہ کرو 
حق پرستی کا اگر دعویٰ ہے 
بے گناہاں کوں ستایا نہ کرو 

معاشرتی اتحاد امیر خسروکی زبان میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سلطنت عہدمیں ادب میں معاشرتی اتحاد پر بہت زیادہ زور دیا گیا۔ بادشاہوں نے اس پر خود اپنے اپنے درباروں میں کام کیا ،دکن کے ساتھ شمال میں بھی ادب کے ذریعے اتحاد معاشرہ کے فروغ میں بادشاہوں اور خاص کرادیبوں اور شاعروں نے اس کے فروغ خوب طبع آزمائی کی، اس کڑی میں امیر خسرو کی ذات سب سے اعلیٰ نظر آتی ہے ،امیر خسرو نے اپنے دوہوں ،کہ مکرانیوں،پہلیوں اور غزل میں اس کو نمایاں کیا ہے ،عوام الناس کی زبان میں شاعری کی،عوامی ادب اور معاشرتی اتحاد کو شعری پیکر میں صفحہ قرطاس پر اتارہ۔ 

امیرخسرو نے اگرچہ اپنی شاعری کا بیشتر حصہ فارسی میں قلم بند کیاہے، لیکن ان کی اُردو یا ہندوی شاعری اس لحاظ سے ایک بے مثال مرتبہ رکھتی ہے کہ اس میں ہندوستانی تہذیب وثقافت اور معاشرے کے مختلف پہلوؤں کو نہایت فن کاری کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ خسروؔ نے اپنے کلام کو فارسی اور اُردو، برج،اورکھڑی بولی کے امتزاج سے ایک منفرد تزئین اور نقاشی سے سنواراہے۔امیر خسرو نے ننانوے تصانیف تخلیق کیں اور ان کا بیشتر کلام زبانِ شیراز ہی میں موزوں ہوالیکن بقول علی جوادزیدی خسروؔ اپنی فارسی سخن گوئی میں بھی مادروطن کے ایک حساس فرزند کی حیثیت میں نغمہ سرا ہیں۔عظمتِ ہند، اس کے عوام، بدلتے ہوئے جغرافیائی مناظر، مہکتے ہوئے گل وگلزار، تناور درخت اور رواں دواں ندیاں اور دریا ان کے محبوب موضوعات میں شامل ہیں۔انہیں اپنے ہندوستانی ہونے پر ناز تھا اورہندوی ہی ان کی زبان تھی:
ترک ھندستانیم من ھندوی گویم جواب
شکر مصری ندارم گزعرب گویم سخن 
فارسی اور ہندوی کی ممزوج غزل کا یہ بے مثال نمونہ امیر خسرو ہی کا خاصہ ہوسکتاہے:
زحال مسکیں مکن تغافل دوراے نیناں بنائے بتیاں 
کہ تاب ہجراں ندارم اے جاں نہ لیہو کاہے لگائے چھتیاں
شبان ہجراں دراز چوں زلف و روز وصلت چوں عمر کوتاہ 
سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں 
یکایک از دل دو چشم جادو بصد فریبم بہ برد تسکیں 
کسے پڑی ہے جو جا سناوے پیارے پی کو ہماری بتیاں 
چوں شمع سوزاں چوں ذرہ حیراں ز مہر آں مہ بگشتم آخر 
نہ نیند نیناں نہ انگ چیناں نہ آپ آوے نہ بھیجے پتیاں 
بحق آں مہ کہ روز محشر بداد مارا فریب خسروؔ 
سپیت من کے دوراے راکھوں جو جائے پاؤں پیا کی کھتیاں
ہندوستان کی ہر شے اور بالخصوص ہندوستانی حسن کے تئیں امیر خسرو کی والہانہ محبت کا جوعالم تھا سید صباح الدین عبدالرحمان نے شاعرانہ الفاظ میں اس کی توضیح کی ہے۔ ان کو چینؔ کا حسن بھی نہیں جچا کیونکہ ان کے معیار کے مطابق اس میں عجز وانکسار نہیں۔تاتاری حسینوں کے لبوں پر ہنسی نہیں دکھائی دیتی اور ختن کے حسینوں کے چہرے پر نمک نہیں ہوتا۔ سمرقند اور قندھار کے حسن میں مٹھاس یعنی قند کی کمی ہے۔ اسی طرح مصر اور روم کے سیمیں بدن حسینوں میں وہ چستی اور چالاکی نہیں پاتے۔خسروؔ کو ہندوستان کے حسن میں یہ ساری خوبیاں دکھائی دیتی ہیں یعنی عجز وانکسار بھی، لبوں پر تبسم بھی، چہرے پر نمک بھی، شیرینی بھی، اداؤں میں چستی اور چالاکی بھی۔اسی لیے بے اختیار ہو کر کہتے ہیں:
بتانِ ہند را نسبت ہمیں است
بہریک موئے شاں صد ملکِ چین است
امیر خسرو نے ہندوی یا ہندوستانی میں شاعری کسی تفریح یا تفنن کے لیے نہیں کی، بلکہ ان کی اس شعوری کوشش اور تجربے کا ماحصل اس ایک نئی زبان کی ابتداء میں دیکھاجاسکتاہے، جسے ابوالفضل نے دہلوی کا نام دیا اور پھر جسے لوگوں نے ریختہ کی حیثیت میں پہچانا ،اور جو بالآخر اُردو کی شکل میں تختِ دہلی کی سرکاری زبان بن گئی۔گوپی چند نارنگ کے الفاظ میں ہندوستان کے عاشق صادق اور سچے وطن پرست تھے۔اپنی شاعری میں جہاں جہاں امیر خسرو ہندوستان کی تعریف کرتے ہیں ان کی روح وجد میں آجاتی ہے اور جیسے ان کے منہ سے پھول جھڑنے لگتے ہیں۔
ہندوستان کے موسموں، تیوہاروں اور رسومات کے بارے میں خسرو نے فارسی اور ہندوی میں جو کچھ لکھاہے وہ ان کے لاتعداداشعار پر مشتمل ہے۔ امیر خسرو نے اپنی۷۲سالہ زندگی میں کئی انقلابات دیکھے جوسلطنتوں اور حکومتوں کے عروج وزوال کا باعث بن گئے۔ ان واقعاتِ زمانہ سے بے نیاز حضرت خسرو نے صرف اپنی صوفیانہ اور ادبی زندگی ہی کو اپنے ذوق وشوق کا مرکز بنالیا۔ ان کا فلسفہ تصوف ان کے فکر وفن کے اظہار کا ایک بہت بڑا منبع ہے۔ خسرو کی شاعرانہ صلاحیتوں کا نکھار اور جلال ان کی اسی شاعری میں ابھر کر سامنے آجاتاہے جس میں انہوں نے اپنے ملک ہندوستان اور ہندوستانیت کے گیت گائے ہیں۔خسروؔ کا اسلوب اس حوالے سے ان کے بعد آنے والے ہندوستانی شاعروں سے نہایت الگ تھلگ اور ایک منفرد حیثیت کا حامل ہے۔اپنے محبوب شہر دہلی میں قیام پذیر ہوتے ہوئے بھی امیر خسرو نے سارے ملک کے اُن ثقافتی پہلوؤں پر خامہ فرسائی کی ہے جن کا ذاتی اور عملی تجربہ کئے بغیر ان کی صحیح تصویر کشی کرنا بصورت دیگر ناممکن نظر آتاہے۔ یہی خسرو کے فن اور نکتہ بین نگاہ کی جولانیوں کا کمال ہے۔
امیر خسروؔ قدیم وجدید ہندوستان کی ادبی زندگی میں ایک مقبول نام ہے جسے یہ خطہ ارضی ابوالحسن یمین الدین کے اصلی نام کی بجائے امیر خسرو ہی کے نام سے جانتاہے۔وہ اپنے عہد کے اعلیٰ پایہ کے سخن گو، موسیقار، موجد،فلسفہ دان،ماہر لسانیات او رعظیم درجہ کے صوفی تھے۔جنہوں نے اپنی شاعری سے ہندستانی معاشرہ کی کا یا پلٹ دی اور مثالی معاشرہ کی بانیوں میں سرفہرت میں اپنا نام در ج کرایا۔

مغل ادب میں معاشرتی اتحاد۔۔۔۔۔۔۔۔۔سلطنت دہلی کے بعد کے حکمراں مسلم تھے جس کا اثر یہاں کے معاشرہ میں اس کا اثر عیاں ہوتا ہے،لیکن معاشرہ ایک کامیاب منزل کے طرف گامزن تھا،سلطنت دہلی کے بعد ابراہیم لودھی کو پانی پت کی میدان میں ظہیرالدین محمد بابر شکشت دیتا ہے اور ایک نئی حکومت کی بنیاد ڈالتا ہے جس کو ہم مغلیہ سلطنت کے نام سے جانتے ہیں ۔عام طور پر مغل معاشرہ اور اس کی ثقافت کو دربار کی شان و شوکت مغل حکمرانوں کے جاہ و جلال اور امراء کی خوشحالی سے جانچا پرکھا اور دیکھا گیا ہے، اور اسی وجہ سے مغل دور حکومت کو ہندوستان کی تاریخ کا سنہرا دور کہا گیا ہے، اس سنہرا دور کی نشانیاں آج تک محلات، باغات، قلعے، دروازے اور بارہ دریوں کی شکل میں موجود ہیں جو عظمت رفتہ اور قصہ پارینہ کی یاد دلاتی ہیں۔ اس طرح جب ہم تاریخوں میں مغل دربار کی رسومات تفریحات ،تہواروں ،جشنوں اور جلوسوں کی شان و شوکت کے بارے میں تفصیلات سے پڑھتے ہیں تو ذہن یہی تصور قبول کرتا ہے کہ مغلوں نے ہندوستان کو عظمت کی بلندیوں تک پہنچایا،اور عالم اقوام میں اس کو ایک منفرد مقام عطا کرایا ،مغل دور حکومت میں حکمران طبقے کی خوشحالی کے ساتھ ہی شاعروں ،ادیبوں اور مورخوں کی سرپرستی کی جاتی تھیں، موسیقی ورقص کی محفلیں منعقد ہوتیں تھیں،جمالیاتی احساسات کی تکمیل کے لئے مصوری کو ترقی دی جاتی تھی، یہ تمام سرگرمیاں معاشرہ کی ایک اعلی ثقافت کو جنم دیتیں ہیں۔ 

ہندستان کے حکمران کی حیثیت سے سلاطین دہلی اور بعد میں مغل بادشاہوں کے لیے ایک اہم مسئلہ تھا ،کہ کیا یہاں شریعت کا نفاذ کرکے اسلامی حکومت قائم کی جائے؟یا سیکولر بنیادوں پر مذہبی رواداری کے ساتھ حکومت کی جائے؟مسلمان طبقوں کے میں ان دونوں نظریات کے درمیان تصادم اور معاصرانہ چشمک رہاہے۔ 
ایک روسی تاریخ نویس یوجینیاوانینا نے اپنی کتاب Ideas and Society in India from the Sixteenth to the Eighteenth Centuries,1996 میں تین صدیوں میں ہونے والے ان نظریات و افکار کے باہمی تصادم کی تاریخ کو بیان کیا ہے، جس سے ہندستانی معاشرہ دو چار تھا،اس نے خاص طور سے ان روشن خیالی اور ترقی پسند نظریات کا تجزیہ کیا ہے جو اکبر کے عہد اور شاہی سرپرستی میں ابھرے،اورہندستانی ذہن کوبدلنے کی کوشش کی ،پھر ان نظریات کا ذکر ہے کہ جو عوامی سطح پر ابھرے اور جنہوں نے قدامت پرستی،مذہبی جنونیت،اور تنگ نظری کو چیلنج کیا۔(بحوالہ تاریخ اور تحقیق ،از ڈاکٹر مبارک علی۔ ص نمبر۳۴،ا)
اکبر کے عہد میں ابوالفضل ایک ایسا دانشور ،مفکر اور فلسفی تھا جس کا ہندستانی معاشرہ کو تبدیل کرنے کا ایک وژن تھا،اکبر نے ایک حکمران کی حیثیت سے اس کے نظریات کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی ،ابوالفضل نے ’’آئین اکبری‘‘میں بادشاہت کا جو نظریہ پیش کیا ہے اس کی تہ میں بڑے انقلابی عناصر کار فرماہیں،اگر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ جو نظریہ ابوالفضل نے پیش کیا ہے اس میں روایتی اسلامی اور ہندو بادشاہت کے نظریات نظر آتے ہیں،لیکن دوسری طرف یہ بھی ہے کہ ابوالفضل کے مطابق ایک حق پرست اور سچابادشاہ آفاقی سچائی اور نیکی کی غرض سے حکومت کرتا ہے،اس لیے وہ مختار ہے کہ قدیم روایات اور اداروں کو تبدیل کرے،یہی وہ بنیاد تھی کہ جس پر اکبر نے عمل کیا اور غیر انسانی اور معاشرتی عمل جس کو کہ ایک اچھا اور مثالی معاشرہ ناگوار سمجھے اس کی انہوں نے ممانعت کر دی ،اس طرح سے ریاست نے پہلی مرتبہ ان معملات میں دخل دیا جو اب تک روایتی طور پر برادری،ذات اور خاندا ن کے حدود میں تھے۔
اسی لئے جب ہم دور اکبر کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس بات کا بخوبی علم ہوتا ہے کہ اکبر کوجو نظریہ ابوالفضل نے دیا کہ سب کا خدا ایک ہے ،صرف نام مختلف ہیں اور سارے خدا کے بندے ہیں۔لہذا بادشاہ اکبر کو چاہے کہ وہ مخلوق خدا کے ساتھ مساوی بنیادوں پرسلوک کریں،اسی کا م کو اکبر نے اپنایا اور ایک مساوی معاشرہ کی بنیاد ڈالی ،تراجم کے ذریعے بھی اس کو فروغ دیا گیا اورایک دوسرے کے معاشرہ سے آشنا ہونے کا موقع ملا ،جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سنسکرت سے فارسی اور فارسی سے سنسکرت میں بہت زیادہ ترجمہ ہوئے، یہ ہو اکہ ۔،جس کا اثر یہ ہو اک عہدِاکبری میں( ایک معاشرہ جس کا شمار کہیں نہیں ہوتاتھا) وہ معاشر ہ اپنی تمام تر خوبیوں سے لبریز ہوتا ہوانظر آتاہے،اتحاد و یگانگت کی مثال بن جاتی ہے،یہ معاملہ کچھ سالوں تک چلاپھر وہ دور آیا جس میں مغل حکومت کا شیرازہ بکھر گیااور مغل حکومت زوال کے گامزن ہو گئی، جس سے ادب متاثر ہوااور پھر ادیبوں ،شاعروں نے اپنا رخ تبدیل کیا اور اد ب میں مغربیت کا جلوہ اپنی شان و شوکت کے ساتھ نمایاں ہوا۔
 
 

مراجعات

عہد وسطیٰ میں مشترکہ تمدن اورقومی یکجہتی .........................ازمحمود علی۔( مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ جامع مسجد دہلی۔۶) 
 سلاطین دہلی کے مذہبی رجحانات ..............................ازخلیق احمدصاحب نظامی(ندوۃ المصنفین اردو بازار جامع مسجد دہلی) 
ہندستانی معاشرہ عہدِ وسطیٰ میں ...............................از کنور محمد اشرف مترجم قمرالدین۔( نیشنل بک ٹرسٹ انڈیا،نئی دہلی) 
اردو ادب کی تحریکیں.........................................ازڈاکٹر انور سدید۔(انجمن ترقی اردو کراچی،پاکستان) 
تاریخ ادب اردو،جلد اول....................................از ڈاکٹر جمیل جالبی۔(ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس۔۶) 
ہندستانی تاریخ وثقافت اور فنونِ لطیفہ.......................... ازعتیق انور صدیقی۔( نیشنل میوزیم،نئی دہلی) 
تاریخ اور تحقیق.................................................از ڈاکٹر مبارک علی۔( فکشن ہاؤس ،مزنگ روڈ لاہو ر پاکستان) 
ماہنامہ اردو دنیا،مارچ ۲۰۱۴................................. .مدیر خواجہ محمد اکرام الدین(قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان۔نئی دہلی)
 

1 comment:

  1. Gold Casino Review – Welcome Bonus, Games, Bonuses & More!
    Read our Gold Casino review and get the latest casino fun88 vin bonus offers. jeetwin You'll receive 100% Welcome Bonus, Gold Casino Review: 1xbet Bonus, Games, Bonuses and More!

    ReplyDelete